گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں حالیہ طوفانی بارشوں اور کلاؤڈ برسٹ کے باعث اچانک سیلابی صورتحال پیدا ہو گئی، جس کے نتیجے میں درجنوں مکانات منہدم ہو گئے اور متعدد علاقے بری طرح متاثر ہوئے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق گلگت بلتستان کے مختلف دیہاتوں میں شدید بارش اور کلاؤڈ برسٹ کے نتیجے میں آنے والے اچانک سیلاب سے درجنوں مکانات کو نقصان پہنچا، سڑکوں کا رابطہ منقطع ہو گیا اور زرعی زمینیں بھی تباہ ہو گئیں۔
سیلاب سے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کے آبائی علاقے تانگیر، گانچھے اور گلگت کے سکارکوئی اور کنڈس دیہات بری طرح متاثر ہوئے۔
پولیس کے مطابق تانگیر ویلی میں عوامی و نجی املاک کو نقصان پہنچا جن میں سرکاری دفاتر، بازار، بجلی کا نظام اور مواصلاتی نظام شامل ہیں۔
پانی مقامی تھانے میں داخل ہو گیا، جہاں اس نے سرکاری ریکارڈ اور آلات کو تباہ کر دیا، جب کہ پولیس اہلکاروں کے رہائشی مکانات بھی متاثر ہوئے۔
اسی طرح اسسٹنٹ کمشنر اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کے دفاتر کو بھی شدید نقصان پہنچا، جب کہ اے سی دفتر کے قریب واقع ایک رہائشی مکان مکمل طور پر منہدم ہو گیا۔
ضلع گانچھے کے مختلف علاقوں میں 60 سے زائد مکانات کو نقصان پہنچا جب کہ ایک پُل بھی بہہ گیا، دریائے شیوک میں پانی کی سطح میں اضافے کے باعث کناروں پر کٹاؤ بڑھ گیا اور سڑکیں بند رہیں۔
گانچھے کے علاقے کندس کے چوگو گرونگ میں پانی نے مساجد، اسکول، ڈسپنسری، سڑکیں، زرعی زمینیں اور مویشیوں کو بھی نقصان پہنچایا۔
گلگت کے سکارکوئی اور کنڈس کے علاقوں میں بھی سیلاب نے متعدد مکانات، دکانیں، سڑکیں اور دیگر بنیادی ڈھانچے کو متاثر کیا۔
سیلاب سے گھروں کے باہر کھڑی موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں بھی متاثر ہوئیں، تانگیر بازار میں کئی دکانوں کو نقصان پہنچا، جب کہ شیکھو پاور ہاؤس کی پانی کی نہر بھی تباہ ہو گئی، جس سے بجلی کی فراہمی معطل ہو گئی۔
گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق کے مطابق گزشتہ چند دنوں میں 100 سے زائد مکانات گر چکے ہیں اور اس ہفتے کے دوران سیلاب سے 6 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بابوسر ویلی میں لاپتا سیاحوں کی تلاش اور امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ 300 سے زائد پھنسے ہوئے سیاحوں کو بابوسر سے نکال کر گلگت، اسکردو اور چلاس منتقل کر دیا گیا ہے۔
جمعرات کو بابوسر روڈ ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند رہا، جبکہ قراقرم ہائی وے ہلکی ٹریفک کے لیے کھلی رہی۔