وزیرستان ٹائمزوزیرستان ٹائمز
  • صفحہ اول
  • پاکستان
  • قبائلی اضلاع / خیبر پختونخوا
  • کالم / بلاگز
  • کھیل و ثقافت
  • ماحولیات
  • ہمارے بارے میں
وزیرستان ٹائمزوزیرستان ٹائمز
  • صفحۃ اول
  • پختونخوا
  • قومی
  • کالم
  • ماحولیات
  • ہمارے بارے میں
Search
  • صفحہ اول
  • پاکستان
  • قبائلی اضلاع / خیبر پختونخوا
  • کالم / بلاگز
  • کھیل و ثقافت
  • ماحولیات
  • ہمارے بارے میں
Follow US
کالم / بلاگز

| پریس کلب جمہوریت کا خاموش ستون ہیں۔

ویب ڈیسک
اکتوبر 16, 2025
شیئر کریں

تفریح ​​کے علاوہ، وہ پریس کی آزادی کے لیے حکمت عملی، یکجہتی اور سماجی دباؤ کو تشکیل دیتے ہیں۔

مصطفٰی علی بیگ

ایسے وقت میں جب جمہوری ادارے کمزور ہو رہے ہیں اور صحافت کو سنسرشپ، کارپوریٹ کنٹرول اور سیاسی پولرائزیشن کے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے، پریس کلبوں کے کردار پر نظرثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ کیا یہ صحافیوں کے لیے محض تفریحی مقامات ہیں، یا پھر وہ اجتماعی آواز، اتحاد اور عوامی احتساب کے لیے اہم پلیٹ فارم کے طور پر کام کرتے ہیں؟ میرے نقطہ نظر سے پریس کلب نہ صرف صحافت کی تاریخ کا حصہ ہیں بلکہ میڈیا، کمیونٹی اور ریاست کے درمیان ایک لازمی پل بھی ہیں۔

میرے دفتر کے قریب گھنٹی کی آواز نے میرے خیالات کو انسانی تاریخ میں واپس کھینچ لیا، جب تہذیب نے سب سے پہلے مواصلات کے مختلف طریقوں کا استعمال شروع کیا، فائر سگنلز اور ڈرم بجانا ایک زمانے میں دور رہنے والی کمینٹیوں کو متنبہ کرنے یا مطلع کرنے کا آلہ تھا۔ گزرتے وقت کے ساتھ، ترقی پذیر معاشروں کے مواصلات کے طریقے بہتر ہوتے گئے۔

جیسے جیسے تہذیبیں پروان چڑھیں، انفرادی اور گروہی تنازعات بھی سامنے آئے، اور مکالمہ ہی انکا واحد حل کا راستہ بن گیا۔ تاہم، جب صنعتی انقلاب آیا تو صنعت کاروں اور امیر اشرافیہ نے غریب مزدوروں کا استحصال شروع کر دیا۔ جواب میں کارکنوں نے فوکل لیڈروں کے ذریعے اپنے مسائل پر آواز اٹھانا شروع کر دی۔ برصغیر کی تاریخ میں، مثال کے طور پر، ایک مزدور نے ایک بار فیکٹری کی دیوار پر احتجاجی پوسٹر لگا دیا تاکہ ساتھی مزدور اور فیکٹری مالکان بائیکاٹ کی وجہ سمجھ سکیں۔ بعد میں، ہر تحریک میں، اور خاص طور پر جدید جمہوری حکومتوں میں، صحافیوں اور رپورٹرز نے یہ کردار ادا کیا۔ وہ مسائل کو اجاگر کرتے ہیں، بحثیں شروع کرتے ہیں، مسائل کی گہرائی میں کھوج لگاتے ہیں، اور معاشرے کو حل کی طرف بڑھنے میں مدد کرتے ہیں

صحافت: جمہوریت کا چوتھا ستون

جدید جمہوری حکومتوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ صحافت کو جمہوریت کے چوتھے ستون کے طور پر تسلیم کریں۔ ایک روایتی صحافی ایسے مسائل کو سامنے لاتا ہے جو سماجی اور جمہوری ترقی میں رکاوٹ ہیں۔

نیو میڈیا کے عروج کے ساتھ، شہری صحافت کا تصور ابھرا۔ عام شہریوں نے انسانی حقوق کے تحفظ اور دیگر مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا استعمال شروع کر دیا۔ ایک صحافی، چاہے وہ روایتی ہو یا شہری، متن، آڈیو یا تصویروں کی شکل میں معلومات اکٹھا کرتا ہے، اسے خبر کے قابل مواد میں پروسیس کرتا ہے، اور اسے عوام تک پہنچاتا ہے۔  اور اگر وہ اخلاقی صحافت کے بنیادی اصولوں پرعمل کریں۔ تو روایتی میڈیا فورمز، یونینز اور کلبوں نے بھی شہری صحافیوں کی رپورٹس کو اہمیت دینا شروع کر دیا ہے۔

ہر ملک یا شہر میں صحافی یونینیں ہیں جو قوانین اور ضوابط سے نمٹتی ہیں، جب کہ کلب ایسی جگہیں ہیں جہاں صحافی سماجی مسائل، ان کی کہانیوں اور اپنی حکمت عملیوں پر گفتگو کر سکتے ہیں۔

صحافی یونین اور پریس کلب کی فاؤنڈیشن

تاریخی طور پر، صحافیوں کی یونینوں نے پیشہ ور صحافیوں کے حقوق کو محفوظ بنانے کے لیے فیڈریشنوں کے تحت کام کا آغاز کیا۔ لیکن جب حکومتوں نے صحافیوں کو خاموش کرنے کی کوشش کی، کیونکہ انہوں نے عہدیداروں، وزراء اور دیگر طاقتور حلقوں کے سکینڈلز کو بے نقاب کیا، ایسے میں صحافی یونینوں نے قانونی امداد کی پیشکش کی۔ پھر بھی، صحافیوں کو باقی معاملات میں مکالمے اور حکمت عملی کے لیے ایک پلیٹ فارم یا جگہ کی ضرورت تھی۔ اور یوں پریس کلب کا وجود عمل میںٍ آیا، پریس کلب لابنگ، رائے سازی، رپورٹنگ کی حکمت عملی تیار کرنے اور حل تلاش کرنے کے لئے مرکزی حثیت کے طور پر سامنے آیا۔

پاکستانی سینئر صحافی اور پاکستان یونین آف جرنلسٹس (پی یو جے) لاہور کے سیکرٹری جنرل عامر سہیل نے اس حوالے سے تاریخی توجیح پیش کرتے ہوئے کہا کہ آمریت کے دور میں، جب یونینوں پر پابندی عائد کی گئی تھی، ایسے میں کلب اکثر جمہوری جدوجہد کو آگے بڑھاتے تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں، مثال کے طور پر، یونینیں پیچھے ہٹ گئیں، اور کلب ایسی جگہیں بن گئیں جہاں صحافی حکمت عملیوں پر تبادلہ خیال کرتے، مکالمے کے ذریعے مباحث کا آغاز کرتے اور اسی کو اظہار رائے کےلئے محفوظ جگہ کا درجہ ملا، اور یہاں تک کہ کام کے ذہنی/تناؤ کو دور کرنے کے لیے یہاں انڈور گیمز کا بھی آغاز کیا گیا۔

اپنی وضاحت کر جاری رکھتے ہوئے سہیل کا کہنا ہے کہ بڑے شہروں میں کلب صحافیوں کے خاندانوں کے لیے اجتماعی جگہیں بھی بن گئے، جس سے سماجی مدد کی تعمیر میں مدد ملی۔ وقت گزرنے کے ساتھ، یونینوں نے اپنی توجہ صحافی مزدوروں کے حقوق تک محدود کر دی، جب کہ کلبوں کی اہمیت بڑھتی گئی، جس نے نہ صرف صحافیوں کو بلکہ عوام اور حکومت کو بھی راغب کیا۔ آجکل، زیادہ تر احتجاج پریس کلبوں کے باہر ہوتا ہے، اور متاثرین اپنی آواز سنانے کے لیے وہاں پریس کانفرنس کرتے نظر آتے ہیں۔ پریس کلب، جو صحافیوں کے لیے ایک محفوظ مباحثے کی جگہ کے طور پر وجود میں آیا وہ رفتہ رفتہ کمیونٹی اور حکومت کے درمیان ایک پل بن گیا۔

تاریخی تقسیم اور نمو

سہیل نے ماضی کے جھرکوں سے یادوں کو شئیر کرتے ہوئے کہا کہ جنرل ضیاء کے دور میں یونینیں دو کیمپوں میں بٹی ہوئی تھیں

• دائیں بازو کے دھڑے میں، آمروں اور جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی تنظیموں جیسے گروہ شامل تھے

• بائیں بازو کے دھڑے میں، جس کی نمائندگی حسین نقی، منہاج برناء، اور ظاہر کشمیری جیسے دانشور شامل تھے

کلبوں اور یونینوں کے الگ الگ کردار

جب ان سے ان اداروں کے بنیادی مقصد کے بارے میں پوچھا گیا تو سہیل نے جواب دیا کہ؛

• ایک کلب صحافیوں کے لیے اپنی رپورٹنگ کے فرائض مکمل کرنے کے بعد آرام کرنے کی جگہ ہے۔ یہاں وہ کہانیاں بانٹتے ہیں، خیالات کا تبادلہ کرتے ہیں، اور بعض اوقات تحقیقاتی رپورٹس پر تعاون کرتے ہیں۔

• اس دوران ایک یونین، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کرتی ہے کہ حکومتیں پریس کی آزادی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے قوانین پر عمل درآمد کریں۔ پاکستان میں، یونینوں نے 1972 کے ایمپلائز ایکٹ کے نفاذ کے لیے جدوجہد کی، جو صحافیوں کے لیے اجرت، کام کے اوقات، ملازمت کے تحفظ اور دیگر حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔

دنیا بھر میں، یونینز صحافیوں کے قانونی حقوق کا تحفظ کرتی ہیں، جب کہ کلب فلاح و بہبود، تفریح، اور سماجی مدد پر توجہ دیتے ہیں۔

صرف ایک پریس کلب کیوں ضروری؟

یہ بتاتے ہوئے کہ کیوں متعدد یونینیں ہوسکتی ہیں لیکن مثالی طور پر صرف ایک پریس کلب ہوتا ہے، سہیل نے اس بات پر زور دیا کہ دونوں ادارے جمہوریت کو مضبوط کرنے میں صحافی برادری کی مدد کے لیے موجود ہیں۔ ایک ہی کلب اتحاد کو یقینی بناتا ہے ایک میز، ایک ذہنیت، ایک اجتماعی آواز۔ بدقسمتی سے، جیسے جیسے ادارے بگڑ رہے ہیں، کچھ افراد اور گروہوں نے ذاتی مفادات کے لیے متوازی پریس کلب قائم کیے ہیں، جس سے کمیونٹی کی مجموعی طاقت کمزور ہو رہی ہے۔

پریس کلب ایک اجتماعی آواز کے طور پر

عامر سہیل، سنئیر صحافی، کے بیان سے پریس کلبوں کا کردار واضح ہے۔ میری رائے میں، پریس کلب لابی تیار کرنے، رائے عامہ کو تشکیل دینے اور حکام پر سماجی دباؤ ڈالنے کے لیے جگہ فراہم کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کو ایک ہی صفحہ پر لاتے ہیں اور اجتماعی آواز اٹھاتے ہیں۔ جس طرح کمیونٹیز کو متنبہ کرنے کے لیے ایک بار متعدد ڈھول پیٹے جاتے تھے، یا جس طرح بہت سے افراد اثر پیدا کرنے کے لیے راویتی "ہاکا رقص” کرتے ہیں۔ یونین بہت سی ہو سکتی ہیں، کیونکہ مختلف قانونی یا موضوعاتی فریم ورک کے لحاط سے کام کرتی ہیں۔ لیکن متعدد کلب صحافیوں کے اتحاد کو توڑنے کا خطرہ رکھتے ہیں۔ ایک منقسم آواز اپنی اہمیت کھو دیتی ہے، جب کہ بہت سی بکھری ہوئی آوازیں بغیر اثر کے صرف شور پیدا کرتی ہیں۔ پریس کلبز بھی اجتماعی آوازوں کو مزید طاقتور بنانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔

آغآز سے آج تک، یونینوں اور انجمنوں نے مخصوص مقاصد کی تکمیل میں اہم کردار ادا کیا ہے، لیکن کلب کا کردار ہمیشہ منفرد رہا ہے، جیسے ایک قبیلہ، برادری، یا جنگل۔ وہ متنوع آراء اور نظریات کو ایک چھت کے نیچے جمع کرتے اور صحافت کی اخلاقی تاریخ بنانے میں مدد کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرہ شروع کرنے والوں اور متحد کرنے والوں کا احترام کرتا ہے، ان لوگوں کا نہیں جو ذاتی فائدے کے لیے تقسیم پیدا کرتے ہیں۔

نوٹ:

لکھاری کی جانب سے پیش کردہ آراء مکمل طور پر لکھاری کی اپنی ہیں اور ضروری نہیں کہ ادارہ ان آراء سے متفق ہو یا ان کی تائید کرے۔ ادارہ ہر لکھاری کی رائے کا احترام کرتا ہے، مگر اس کا متفق ہونا لازمی نہیں ہے۔
​اگر آپ ہمارے ساتھ اس سفر میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو اپنی تحریر کا ایک نمونہ (یا آئیڈیا) ہمیں بھیجیں۔ ہم آپ کی تحریر کے منتظر ہیں!

کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں

پاکستان

وانا میں احتجاجی مظاہرہ؛ امن بحالی،انگورآڈہ پر تجارت کی بحالی سمیت دوسرے مطالبات پیش

اگست 22, 2025
پاکستان

جنوبی وزیرستان وانا؛ قبائلی ملک اغواء، پولیس نے تصدیق کردی

اگست 13, 2025
پاکستان

اپر وزیرستان کی تاریخ میں پہلی بار مکین میں کتاب میلہ، نوجوانوں کی بھرپور شرکت

جولائی 4, 2025
کالم / بلاگز

مقامی امریکیوں کی نسل کشی سے غزہ میں مظالم تک، ’امریکا کی روح زہرآلود ہورہی ہے‘

جون 28, 2025
وزیرستان ٹائمزوزیرستان ٹائمز
Follow US
2025 | WAZIRISTAN TIMES | RIGHTS RESERVED
POWERED BY: THE DOTANI DIGITAL
Welcome Back!

Sign in to your account

یوزر نیم / ای میل
پاسورڈ

Lost your password?