خیبر پختون خوا کے جنوبی اضلاع کی زرخیز بدامنی نے شہریوں کو ریاستی اداروں اور نان سٹیٹ ایکٹرز کی کشمکش کے درمیان حائل خط امتیاز کی باریک دھار پہ چلنے کا ہنر سیکھا دیا ، یہاں کے عوام اب موت و حیات اور بیم و رجاء کے مابین جینے کے عادی ہو چکے ہیں ۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ پولیس اور ایف سی اہلکاروں کی وحشیانہ ٹارگٹ کلنگ ، سیکیورٹی فورسز پہ گھات لگا کر حملے اور سی پیک روٹ سمیت مین شاہراوں پہ ناکے لگا کر سرکاری ملازمین کے اغواء جیسے جرائم کا بوجھ اور اِسی لاقانونیت کے تدارک کی خاطر پولیس اور سیکیورٹی فورسیسز کے آپریشز کا وبال بتدریج معاشرتی نظم وضبط کو دگرگوں اور شہریوں کی بنیادی آزادیوں کو محدود کرکے شہریوں کے لئے تشدد کو گوارا بنا گیا ۔ افسوس کہ یہاں کے پیچیدہ حالات پہ معمول کی بدامنی یا امن ، لاقانونیت یا قانون کی عملداری ، نظم و ضبط یا انتشار ، حکومت یا انارکی اور عدل یا ظلم جیسی روایتی اصطلاحات کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا ، ہماری سماجی فضا میں اب رٹ آف دی گورنمنٹ کے مفاہیم بدل گئے ہیں کیونکہ معاشرے کو ریگولیٹ کرنے والی انتظامیہ کے عناصر خود اپنی بقاء کے مسائل سے دو چار ہیں ، وفاقی و صوبائی حکومتیں اپنی فورسز پہ کنٹرول کھو رہی ہیں ، یہاں ایک خاص نوعیت کی انارکی اجتماعی زندگی کا جُز بن چکی ہے ۔ حیرت انگیز بات یہ کہ ہماری سوسائٹی اور ریاستی ڈھانچہ تشدد سے متاثرہ ہونے کے باوجود خود اِسی آشوب کے بینافشری بھی ہیں ، ہم ایک ہاتھ سے تشدد سے نجات پانے کی تگ و دو اور دوسرے سے اِسی المیہ سے مفاد کشید کرنے میں سرگرداں رہتے ہیں ۔
اگر پیچھے پلٹ کر دیکھیں تو ہمیں مغربی سرحدات اور اندورن ملک جس قسم کے انتشار کا سامنا ہے ، اس کی جڑیں عالمی تنازعات اور ملکی پاور پالیٹکس میں مذہب کے استعمال میں پیوست نظر آئیں گی ، چنانچہ ان عواقب کو معاشرے کی فطرت سے جدا کرنا آسان نہیں ہو گا ، ابھی حال میں فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے امریکی تھنک ٹینک سے خطاب میں اسی مسلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ” ہم اپنی سوسائٹی کو ڈی ریڈکلائز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ پاکستان میں نارمل معاشرہ برپا کرکے حکومتی عملداری یقینی بنا سکیں ” تاہم یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک ہم عالمی تنازعات اور قومی سیاست سے مذہبی جماعتوں کے کردار کو یکسر ختم نہیں کر لیتے ، مذہبی عوامل کا معاشرتی شعور پہ حاوی ہونا اجتماعی زندگی کو لاقانونیت والے معاشرے کی طرف منتقلی کا ذریعے بنکر اجتماعی حیات کے مختلف پہلوں کو متاثر کر رہا ہے ، بشمول سیاسی ڈھانچہ ، سماجی نظم و ضبط اور اقتصادی نظام جیسے کہ بنکوں کا عالمی مالیاتی سسٹم سے الگ کرنے کے عدالتی چارہ جوئی ۔ امر واقعہ بھی یہی ہے کہ مذہبی ادارے متوازی اتھارٹی کے طور پہ نمودار ہوئے ہیں ، جیسا کہ لال مسجد کے منبر پہ فائز علماء کی طرف سے ملکی آئین و قانونی کی کھلے عام تحقیقر اور توہین مذہب کے الزامات کو لیکر سریٹ جسٹس کے رجحان کے علاوہ مذہبی اصولوں پہ معاشرے کی تشکیل کی علمبردار ٹی ٹی پی جیسی تنظیموں کی ریاست کے خلاف مسلح جارحیت اور دینی مدارس کا قانونی نظام کے تابع رہنے سے انکار اسی کی کلاسیکی مثالیں ہیں ۔ اگرچہ تاحال ہمیں حکومت کا مکمل فقدان در پیش نہیں لیکن اسی تعبیر سے مماثل کئی شکلیں نمودار ہو چکی ہیں ، جس کا مطلب ہے کہ ہر کوئی اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے پہ مصر ہے ، چاہئے دائیں بائیں اور بیچ میں دوسروں کے حقوق کی خلاف ورزی ہی کیوں نہ ہوتی رہے ، Might is Right کا فرسودہ تصور اس لئے پنپ رہا ہے کہ یہاں انسانوں کے جبلی رویّوں کو عقلی ہدایت کے تابع لانے کی خاطر قانونی تادیب اور اخلاقی ترغیب کا کوئی میکنزم موجود نہیں ۔ معاشرے کو ریگولیٹ کرکے تہذیب کو سنوارنے میں حکومتوں کا کردار اہم ہوتا ہے، حکومتیں معاشرے کی فلاح کے لئے تنازعات میں فریقین کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرتے ہیں ، جو مجرموں کو سزا دینے اور قانونی عمل کے ذریعے انفرادی رویوں پہ چیک اینڈ بیلنس قائم رکھنے کا اہتمام کرتی ہیں ، اسی طرح ایک مضبوط حکومت ہمیں نظم وضبط اور امن فراہم کرتی ہے ۔ مستزاد یہ کہ فی الوقت ہمارا داخلی انتشار بین الاقوامی انارکی کے سائے میں پروآن چڑھ رہا ہے، جس میں چین اور امریکہ جیسی بڑی ریاستوں کے درمیان مسابقت اور تصادم ہمارے داخلی نظام میں باہمی تعاون کے امکانات کو کم کرتا ہے ، اس لئے ہمارے عہد کا زرخیز انتشار حکومت کی نہیں بلکہ حکمرانی کی عدم موجودگی کی نمائندگی کرتا ہے ۔ ہمارے یہاں نہ تو طاقت کی کمی ہے نہ تنظیم کی بلکہ کوارڈینشن کا فقدان ہماری مساعی کو لاحاصل بنا رہا ہے ۔ صرف ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن میں ایف سی کی ایک کور اور فوج کی کم و بیش نو بریگیڈز کے علاوہ آرمی کا البرق ڈویژن ، آئی ایس آئی، ایم آئی ، آئی بی ، ایف سی سمیت ہر بریگیڈ کا الگ انٹیلیجنس نیٹ ورک ، سپیشل برانچ اور پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی کے باوجود حکمراں اشرافیہ دہشتگردی پہ قابو نہیں پا سکی تو اس کی اصل وجہ کوارڈینشن کی کمی اور قوت کے ارتکاز کا فقدان ہے ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دہشتگردی کے خلاف کاروائیوں میں روزانہ اوسطً دو فوجی جوان شہید ہو رہے ہیں یعنی ہم ہر ماہ ساٹھ جوان و افسران کو کھو دیتے ہیں ، فوج زندہ وجود رکھنے والی فعال فورس ہے جس کے جسم سے روزانہ اگر خاموشی کے ساتھ قطرہ قطرہ خون رستا رہا تو ایک دن یہ مضمحل ہو جائے گی ، جیسے افغانستان میں خاموشی رستا ہوا خون (slow bleeding) نیٹو افواج کو کھا گیا ۔
علی ہذالقیاس ، حکومتی عملداری کے لئے جس جامع ، مربوط اور طویل المدتی حکمت عملی کی ضرورت تھی وہ صرف ریاستی طاقت یا فوجی کارروائی تک محدود نہیں بلکہ سیاسی، سماجی، اقتصادی اور انتظامی سطح پہ مربوط اقدامات ہی فورس کے استعمال کو نتیجہ خیز بنا سکتے ہیں ۔ ہماری سہل انگاری نے نظامِ عدل کو غیرموثر بنا دیا جس سے گرفتار دہشتگردوں کو سزائیں ملنے کا خوف ختم ہوتا گیا ۔ ریاستی اتھارٹی نے غیر اعلانیہ طور پر نوجوانوں کے لئے اسپورٹس ، فنی تربیت اور مثبت سرگرمیوں کے مواقع محدود کرکے شدت پسندی کو پاوں پھیلانے کا موقعہ فراہم کیا ۔ بدامنی کی بدولت پہلے سے موجود روزگار کے روایتی مواقع ، پسماندہ علاقوں میں اسکول ، ہسپتال اور پرانا انفراسٹرکچر اجڑ گیا ، جس کے نتجہ میں نوگو ایریاز بڑھتے گئے ۔ رٹ آف دی گورنمنٹ قائم کرنے کے لئے درکار اقدامات یعنی ریاست کا غیر متزلزل عزم ، سیاسی قیادت کو مصلحت ، خوف یا ووٹ بینک کی پرواہ کئے بغیر مضبوط موقف اپنانے سے گریز تباہ کن نتائج کا سبب بنا، آج ریاست تو ہر جگہ موجود ہے لیکن بے اثر ہو چکی ہے ۔ اسی لئے ہماری مصیبت زدہ نسل نے اِس ہائبرڈ نظام کو انکساری کے ساتھ قبول کر لیا ،جس میں آئینی جمہوریت کی روح معدوم ہے کیونکہ اب ہم آزادی کے مشتاق نہیں بلکہ شدت کے ساتھ تحفظ ، نظم وضبط اور امن کے خواہشمند ہیں ، عوام مبہم انداز میں سمجھ چکے ہیں کہ انکی بدعنوان اور مصلحت کوش قیادت جو ، فطرتاً نامہرباں بھی ہے ، ان پہ حکومت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی